ARY TV LIVE

Did national


حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام خط فتوح شام کی قسط نمبر12

والا ہے چونکہ آپ خلیفۃ المسلمین کی طرف سے مامور اور ان کے حکم کے پابند ہیں 

اس لیے یہ آپ کی صوابدید پر ہے اگر تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو ہمارے ساتھ ہو جانے کو فرمایا تھا تو چلے آئے اور اگر وہی ثابت رہنے کا فرمایا تھا تو وہی رہی ہے سب ساتھیوں کو سلام کہیے گا اور آپ پر اللہ تعالی کی سلامتی ہو اور اللہ تعالی کی برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہو آپ نے یہ خط لکھیں پیٹ کر رہا تھا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا حضرت خالد ابو عامر دوسی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لشکر میں آئے حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کو سلام کیا اور روتے روتے وہ خط ان کے حوالے کیا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف بڑھ کر ان کے ساتھ مصافحہ کیا عزت و احترام سے ان کو بٹھایا اور ان کے بہادر بیٹے حضرت سعید رضی اللہ عنہ شہید کی تعزیت کی اور ان کو تسلی اور حوصلہ دیا صبر و تحمل کی تلقین کی اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ آیا تم نے دیکھا تھا کہ حضرت سعید رضی اللہ عنہ میں اپنے نیزے اور تلوار کو کفار کے خون سے سیراب کیا تھا لوگوں نے کہا جی ہاں حضرت سعید رضی اللہ عنہ بہادری اور شجاعت کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے 

بہادری کے جوہر دکھانے میں حضرت سعید رضی اللہ عنہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی


 اللہ تعالی کے دین کی نصرت میں انہوں نے بڑا مجاہدانہ کردار ادا کیا فارسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا پھر انہوں نے کہا مجھے ان کی قبر دکھا دو لوگوں نے ان کو حضرت سعید رضی اللہ عنہ دکھائی باپ کا بیٹے کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا مانگنا حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے بیٹے کی قبر پر کھڑے ہو گئے اور کہا بیٹا اللہ تعالی تمہارے متعلق مجھے صبر عطا فرمائے اور مجھے بھی تم سے ملا دے انا للہ وانا الیہ راجعون ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اسی کے پاس لوٹنے والے ہیں خدا کی قسم اگر مجھے اللہ تعالی نے ہمت اور طاقت عطا کی تو میں ضرور تیرا بدلہ لے کر رہا ہوں گا اے میرے بیٹے مجھے امید ہے تم اپنے اللہ رحیم و کریم کے پاس اجر ثواب پاؤ گے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کا انتقام پھر حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کے میں چاہتا ہوں کہ میں گوریلے انداز سے چھاپا مار کر دشمن کو تلاش کرو شاید موقع ہاتھ آ جائے اور میں دشمن کے سپاہیوں کو سبق سکھاؤں اور اپنے لخت جگر کا انتقام لے سکوں اور مال غنیمت بھی ممکن ہے حاصل ہو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے میرے ماں باپ جائے بھائی جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں جس وقت لڑنے کا اتفاق ہو اور دشمن کا سامنا ہو جائے تو جی بھر کر لڑ لینا اور دشمن کے کسی فرد کو زندہ نہ چھوڑنا میدان میں اپنی شجاعت کے جوہر خوب دیکھا لینا حضرت خالد رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے

 اللہ تعالی کی قسم مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا میں تو ابھی دشمن کو تلاش کرنے چلوں گا 


چاہے مجھے اکیلے ہی کیوں نہ جانا پڑے یہ کہہ کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے سامان سفر باندھنا شروع کردیا اور تنہا ہی چلنے کا عزم کر لیا ادھر کو مقامی رکے 300 نوجوان شہسوار گھوڑوں پر سوار ہو کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ہمیں آپ خالص رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں آپ نے ان کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے انہیں اذن جہاد عطا فرما دیا سنان سے یہ سب مجاہد حسین چل کھڑے ہوئے ایک جگہ دامن کوہ میں وادیوں کے اندر پڑھو کا ارادہ کیا تھا کہ وہاں گھوڑوں کو چلنے چھوڑ دیا جائے اور کچھ آرام کے بعد راتوں رات اگلی منزل کی طرف سفر طے کیا جائے تو مناسب ہوگا اچانک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی نگاہ پہاڑی کی چوٹی پر پڑی تو آپ کو وہاں کچھ ایسے دکھائی دیے اپنے ساتھیوں سے فرمایا مجھے اس پہاڑ کی چوٹی پر کچھ شک ہوا ہے اور انسانی صورتیں نظر آئیں ہے گمان ہوتا ہے کہ یہ دشمن کے جاسوس ہے اور ہم وادی میں ہیں بس کہیں ہمارے اوپر کوئی مصیبت بن کر نازل ہو جائیں مسلمانوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ پہاڑی کی چوٹی پر ہیں اور ہم کھلے میدان میں ہم ان تک کیوں کر پہنچ سکتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا تم لوگ میرے آنے تک کسی جگہ ٹھہرے رہنا میں ان کی خبر لے کر آتا ہوں یہ کہا اور آپ نے گھوڑے سے اتر کر تہبند کس کر باندھا اور تلوار کو حمائل کیا ڈھال کو کندھے پر ڈالا اور فرمایا یہ سمجھ لو کہ ان لوگوں ہنوز ہمیں نہیں دیکھا ہے اگر دیکھ لیتے تو یہاں نہ رکتے پھر فرمایا تم میں سے کون شخص اپنی جان اللہ تعالی کی راہ میں صرف کرنا چاہتا ہے یہ سن کر آپ کے ساتھیوں نے یک زبان ہو کر کہا ہم سب آپ کے ساتھ متفق ہیں مسلمانوں کا عقابوں کی طرح دشمن پر جھپٹنا راوی کہتے ہیں انہوں نے پہاڑ کا چکر لگایا یہاں تک کہ ان کے بالکل قریب چونٹی پر جا پہنچے اور وہ لوگ بے خبر اپنی کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے فرمایا کہ پکڑ لو کوئی بھاگنے نہ پائیں اللہ تعالی تمہاری ہم تو کو بڑھائے مسلمان عقاب کی طرح سرعت کے ساتھ ان پر چھپٹے اور ان میں سے تیس کو قتل اور چار کو قید کر لیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان کے احوال معلوم کیے تو انہوں نے بتایا کہ ہم شام کے دیہاتوں دیر البقیع الجامعہ اور کفر الزہرا کے رہنے والے کاشتکار لوگ ہیں جب سے عرب نے ہمارے شہروں پر چڑھائی کی ہے ہم سخت پریشان ہے اکثر آبادی بھاگ کر لو اور گڑھ یو میں پناہ گزین ہو گئی ہے ہم لوگوں نے اس پہاڑ پر جانے بچانے کی خاطر پنا لے رکھی تھی کیونکہ ادھر کی تمام دیہاتی آبادی میں سے یہی جگہ سب سے زیادہ پرامن اور محفوظ کی اس لیے ہم اس مقام پر چڑھا کر رہنے لگے مگر آپ لوگوں نے یہاں سے بھی ہمیں گرفتار کر لیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ لشکر روم کے متعلق تمہیں کیا معلومات ہیں وہ کہاں تک پہنچ گیا انہوں نے کہا کہ وہ اجنادین کے مقام پر پہنچ چکا ہے اور بادشاہ فلسطین کی طرف چلا گیا ہے تاکہ بیت المقدس کی حفاظت کرکے اجنادین میں تمام لشکر ما مغرور دین کے جمع ہو اور ایک سردار رسد لینے کے لئے ہمارے یہاں آیا تھا اس نے چوپایوں اور خچروں کو بار برادری کے لئے اکٹھا کیا ہے مگر اسے ڈر ہے کہ کہیں اہل عرب ان کو نہ ملیں ہمیں محض اس قدر معلومات ہیں اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ انہوں نے درست کے لئے آج ہی کوشش کیا ہے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سن کر فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ تو مال غنیمت ہے آپ نے دعا کی اے اللہ ان لوگوں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد فرما پھر آپ نے ان سے پوچھا کہ وہ کون سے راستہ سے جائیں گے انہوں نے کہا اسی راستہ سے جس میں تو موجود ہوں کیوں کہ کشادہ راستہ یہی ہے اور راشدہ انہوں نے ایک ریت کے ٹیلے کے پاس جس کو طلب نیسیف یعنی تیرا بنی سیف کہتے ہیں میں جمع کر رکھی ہے حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ہمارے دین اسلام کے بارے میں تم کیا کہتے ہو اور کیا اعتقاد رکھتے ہو انہوں نے جواب دیا ہم تو دیہاتی اور کاشتکار لوگ ہیں ہمیں دین صلیب یعنی کے سائیں مذہب کے سوا کسی مذہب اور دین سے واقفیت نہیں ہے اور ہمیں قتل کر کے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ملے گا

Table test

 <table class="table table-striped">

<thead> <tr> <th scope="col">#</th> <th scope="col">First</th> <th scope="col">Last</th> <th scope="col">Handle</th> </tr> </thead> <tbody> <tr> <th scope="row">1</th> <td>Mark</td> <td>Otto</td> <td>@mdo</td> </tr> <tr> <th scope="row">2</th> <td>Jacob</td> <td>Thornton</td> <td>@fat</td> </tr> <tr> <th scope="row">3</th> <td>Larry</td> <td>the Bird</td> <td>@twitter</td> </tr> </tbody> </table>

internet speed checker